اوسلو (خصوصی رپورٹ)۔
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے جید عالم دین علامہ محمد تقی رحیمیان نے کہاہے کہ پاکستان علمی تحقیق کو فروغ دے کر بہت آگے جاسکتاہے۔
یہ بات انھوں نے پاکستانی ریسرچر اور سینئرصحافی سید سبطین شاہ سے گذشتہ دنوں ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں مرکز محبان اہل البیت میں ایک ملاقات میں کہی۔
اس دوران مرکز محبان اہل البیت کے سابق صدر سید حسین موسوی اور سماجی شخصیت حاجی ارشد حسین بھی موجود تھے۔
واضح رہے کہ علامہ محمد تقی رحیمیان جو قم ایران کی اسلامی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں، گذشتہ دنوں مرکز محبان اہل البیت میں اپنے علمی لیکچرز کے سلسلے میں ناروے کے دورے پر تھے۔
علامہ رحیمیان نے اس سوال کے جواب میں کہ علوم فلسفہ کو پاکستان میں فروغ حاصل کیوں نہیں ہوا، خاص طور پر تحقیق میں کوئی نمایان اور وسیع کام نہیں ہوئے، کہا کہ اصل میں بات یہ ہے کہ پاکستان کے عام سکولوں میں ریسرچ کو ابتدائی تعلیم کی سطح پر فروغ نہیں دیا جاتا اور اسی لیے اعلیٰ تعلیم کی سطح پر طلباء تحقیق سے دور بھاگتے ہیں۔
سید سبطین شاہ نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان میں نظام تعلیم ناقص ہونے کی وجہ سے زیادہ تر بچوں میں خوداعتمادی بہت کم ہے اور ابتدائی تعلیم کی سطح پر بچے رٹا لگا کر پڑھتے ہیں جو بعد میں انہیں پڑھا ہوا بھول جاتا ہے۔ اس رٹا پراسس کی اساتذہ بھی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور والدین بھی اس کی حوصلہ شکنی نہیں کرتے۔ کیونکہ پاکستان میں تعلیم کا مقصد اچھا نمبرز بن گیا ہے اور اچھی نوکری حاصل کرنا ہی رہ گیا ہے۔ اس میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پہلے تو والدین اپنی مدد آپ کے تحت اپنے بچوں کو پڑھا رہے ہیں اور وہ کہاں تک اپنی مدد آپ کے تحت تعلیم کو فروغ دے سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ سرکاری سطح پر تعلیم کا بجٹ ہی بہت کم ہے۔
اس ملاقات میں فلسفے کے بارے میں بھی گفتگو ہوئی۔ سید سبطین شاہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ کسی چیز کے وجود کے بنیادی اصول کے علم کا نام فلسفہ ہے۔ یعنی حقیقت اور وجود کے بنیادی نوعیت کے مطالعے کا نام فلسفہ ہے اور اس کی مخلتف شاخیں ہیں۔ مثلاً ما بعد الطبیعات، نظریہ علم، منطق، اخلاقیات اور فنون لطیفہ وغیرہ۔
علامہ تقی رحیمیان نے کہاکہ کسی قوم کی علم سطح کو اجاگر کرنے کے ضروری ہے کہ فلسفہ کو ہرسطح پر پڑھایا جائے۔ اس سے قوم کی ذہنی سطح بلند ہوگی اور سوچ میں وسعت آئے گی۔ آٹھویں صدی کے دوران اور بعد کی دو صدیوں میں عالم اسلام میں جدید علوم کو فروغ اس لیے حاصل ہوا کیونکہ علوم فلسفہ کو عام ہوا اور لوگوں میں ذہنی آزادی آئی۔
سید سبطین شاہ نے علامہ رحیمیان کی اس بات سے اتفاق کیا کہ آٹھویں اور نویں صدیوں کو عالم اسلامی کا سنہرا دور اس لئے کہا جاتا ہے، کیونکہ ان صدیوں میں سوچ اور تفکر کی آزادی رہی۔ اس دوران بڑے بڑے مفکر اور علوم دان پیدا ہوئے۔ جن میں جابر بن حیان، خوارزی، البیرونی، ابن اسحاق کندی، ابوبکرزکریا رازی اور بو علی سینا قابل ذکر ہیں۔
انھوں نے کہاکہ آزادی کسی بھی قوم کی ترقی میں سب سے اہم ہے اور خاص طور سوچ کی آزادی سے ذہنوں میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ اس سے ترقی کی نئی راہیں کھلتی ہیں۔
سید حسین موسوی نے بھی ان باتوں سے اتفاق کیا اور کہاکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں تعلیم کے میدان میں ترقی بہت ضروری ہے۔ اس میدان میں آگے بڑھ کر یہ ملک مزید ترقی کرسکتا ہے۔ تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ تعلیم بھی اعلیٰ کوالٹی کی ہونی چاہیے۔ پاکستان میں رٹا اور نقل جیسے ہتھکنڈوں کو ختم ہونا چاہیے۔ بچوں میں تحقیق اور جستجو کے رحجانات بڑھنے چاہیں۔